Degree System VS Skill System in Pakistan



پاکستان میں تعلیم کا فرسودہ نظام اور بے روزگاری

پاکستان میں تعلیم کا فرسودہ نظام اور بے روزگاری کا بڑھتا ہوا مسئلہ

پاکستان میں روز بروز بڑھتی بے روزگاری ایک سنگین مسئلہ بنتی جا رہی ہے۔ ایسے وقت میں جب دنیا کے ممالک تیزرفتار ترقی کی راہ پر گامزن ہیں، ہمارا ملک اس دوڑ میں پیچھے ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ اس کی بڑی وجہ ہمارا روایتی تعلیمی نظام ہے جو طلباء کو علم اور ہنر کی بجائے صرف ڈگریاں تھمانے میں مصروف ہے۔ ہر سال ہزاروں طلباء بیچلر اور ماسٹرز کی ڈگریاں لے کر نکلتے ہیں، لیکن ان کے پاس عملی زندگی میں استعمال ہونے والے ہنر نہیں ہوتے۔ ان ڈگری یافتہ نوجوانوں میں روزگار کے مواقع نہ ہونے کی وجہ سے بے روزگاری ایک سنگین مسئلہ بنتی جا رہی ہے۔

اکیڈمیوں کا کردار: رٹا سسٹم اور ٹاپر کلچر

پاکستان میں کئی اکیڈمیاں ہر سال 10-15 طلباء کو رٹوا کر بورڈ میں ٹاپ کراتی ہیں اور پھر اپنے اشتہارات میں ان نتائج کو نمایاں کرتی ہیں۔ یہ اکیڈمیاں رٹا سسٹم کو فروغ دے کر طلباء کو سوچنے، سوال کرنے اور تحقیق کرنے سے دور کرتی ہیں۔ ہر سال لاکھوں طلباء ایسے اکیڈمی سسٹم سے نکلتے ہیں، لیکن ان کے پاس حقیقی علم یا کوئی مہارت نہیں ہوتی جو انہیں عملی زندگی میں مدد دے سکے۔

بی ایس پروگرامز اور بے روزگاری کا عفریت

پاکستان کی یونیورسٹیاں مختلف بی ایس پروگرامز متعارف کروا رہی ہیں، جن میں بی ایس اردو، بی ایس انگلش ہسٹری اور بی ایس سرائیکی وغیرہ شامل ہیں۔ یہ پروگرامز تعلیمی اعتبار سے اہم ہو سکتے ہیں لیکن عملی زندگی میں ان کا زیادہ تر فائدہ نہ ہونے کی وجہ سے بے روزگاری کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے۔ طلباء کو تحقیق اور عملی ہنر سکھانے کی بجائے انہیں صرف ڈگری دی جاتی ہے، جس کا عملی زندگی میں کوئی خاص فائدہ نہیں ہوتا۔

فرسودہ تعلیمی نظام اور طلباء کی ناکامی

پاکستان کا تعلیمی نظام زیادہ تر تھیوری پر مبنی ہے اور اس میں عملی ہنر کو فروغ نہیں دیا جاتا۔ سمسٹر سسٹم میں طلباء کو اکثر نوٹس رٹوا کر امتحانات کی تیاری کروائی جاتی ہے، جس کے بعد انہیں ڈگری دے دی جاتی ہے۔ اس نظام میں ریسرچ اور انوویشن کی کوئی جگہ نہیں ہے، جس کی وجہ سے ہر سال لاکھوں طلباء ڈگریاں تو حاصل کرتے ہیں لیکن عملی میدان میں ناکام رہتے ہیں۔

انڈیا کا ٹیکنیکل ایجوکیشن ماڈل

اس کے برعکس، انڈیا میں طلباء کو میٹرک یا انٹرمیڈیٹ کے بعد ٹیکنیکل کورسز کروائے جاتے ہیں۔ یہ کورسز طلباء کو ہنر مند بناتے ہیں اور انہیں عالمی مارکیٹ میں مقابلہ کرنے کے قابل بناتے ہیں۔ انڈین طلباء Quality Inspection، Audit Management، Mechanical Skills، Human Resource Management، Project Management، اور Information Technology جیسے کورسز کر کے عملی میدان میں قدم رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج عرب ممالک کے ایئرپورٹس اور بڑی کمپنیاں انڈینز سے بھرے ہوئے ہیں۔ وہ نہ صرف بہتر ملازمتیں حاصل کر رہے ہیں بلکہ فیصلہ ساز عہدوں پر بھی براجمان ہیں۔

پاکستانی نوجوانوں کی جدوجہد اور بے روزگاری

دوسری طرف، پاکستان میں پڑھے لکھے نوجوان دبئی جیسے ممالک میں Pizza Delivery کرنے پر مجبور ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ ہمارے پاس مہارتوں کی کمی ہے۔ ہم نے اپنے تعلیمی نظام کو جدید دور کی ضروریات کے مطابق ڈھالنے کی کوشش نہیں کی۔ یہ ایک دائرے کا سفر ہے جس کا اختتام پھر سے اپنے گاؤں یا چھوٹے موٹے روزگار کی تلاش میں ہوتا ہے۔

ہنر سیکھنے کی ضرورت

پاکستانی نوجوانوں کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ دنیا بہت آگے بڑھ چکی ہے اور وہ علم جو ہمیں پڑھایا جا رہا ہے، دنیا میں اس کی قدر و قیمت کم ہو چکی ہے۔ ہمیں اپنے تعلیمی نظام میں تبدیلیاں لانے کی اشد ضرورت ہے تاکہ ہم دنیا کی موجودہ ضروریات کے مطابق خود کو تیار کر سکیں۔

تعلیمی نظام میں اصلاحات کی ضرورت

پاکستان کے تعلیمی نظام میں انقلابی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ ہمیں تھیوری پر مبنی تعلیمی نظام سے ہٹ کر عملی تعلیم اور مہارتوں پر زور دینا چاہیے۔ یونیورسٹیوں اور کالجز میں ایسے پروگرامز متعارف کروائے جائیں جو طلباء کو بین الاقوامی معیار کے مطابق ہنر مند بنائیں۔

کیا ہمیں ٹیکنیکل ایجوکیشن کی جانب بڑھنا چاہیے؟

ہمیں صرف ڈگری یافتہ افراد کی تعداد بڑھانے کے بجائے ہنر مند افراد پیدا کرنے پر توجہ دینی چاہیے۔ ٹیکنیکل ایجوکیشن ایک بہترین راستہ ہو سکتا ہے جس کے ذریعے طلباء کو عملی زندگی کے لیے تیار کیا جا سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی، یونیورسٹیوں کو ریسرچ اور انوویشن کو فروغ دینے کی ضرورت ہے تاکہ طلباء عالمی چیلنجز کا مقابلہ کر سکیں۔

نتیجہ: مستقبل کی تعمیر کیسے ممکن ہے؟

پاکستان کو اس وقت ایسے تعلیمی ماڈل کی ضرورت ہے جو طلباء کو نہ صرف تھیوری میں بہترین بنائے بلکہ انہیں عملی ہنر بھی سکھائے۔ موجودہ تعلیمی نظام نوجوانوں کو بیروزگاری کی دلدل میں دھکیل رہا ہے۔ جب تک ہم اپنے تعلیمی نظام میں عملی ہنر اور جدید دنیا کی ضروریات کو شامل نہیں کرتے، تب تک پاکستان میں بے روزگاری کا مسئلہ بڑھتا رہے گا۔

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی